The following article has been taken from BBC Urdu blog and written by Wusat Ullah Khan. As it reflects some of my views in satirical way I like to put it on my blog as well.
ریاست بہاولپور کا قصہ ہے کہ ایک شخص دورانِ شکار نواب صاحب کے ہمرکاب ہوگیا اور انہیں ایسے ایسے دلچسپ قصے سنائے کہ نواب صاحب باغ باغ ہوگئے۔انہوں نے اپنے سکریٹری
سےپوچھا یہ کون ہے۔سکریٹری نے کہا قبلہ عالم یہ آپ ہی کی فوج میں کپتان ہے۔نواب صاحب نے کہا اتنا ذہین شخص اور صرف کپتان ، اسے تو میجر ہونا چاہیے۔
اگلے برس نواب صاحب پھر شکار کے لیے نکلے تو سیکرٹری نے بطورِ خاص اسی شخص کو نواب صاحب کا دل بہلانے کے لیے شکار پارٹی میں شامل کرلیا۔ لیکن اس دن نواب صاحب کا موڈ اچھا نہیں تھا۔ جب اس شخص نے اپنے تئیں دلچسپ واقعات سنانے شروع کیے تو نواب صاحب نے سیکرٹری سے پوچھا یہ کون ہے جو بے پر کی اڑا رہا ہے۔ سیکرٹری نے کہا حضور یہ وہی ہے جسے قبلہ عالم نے گذشتہ برس خوش ہوکر کپتان سے میجر بنایا تھا۔ نواب صاحب نے کہا ایسا گپ باز شخص میجری کے قابل نہیں اسے صوبیدار بنا دو۔۔۔۔۔
پرانے زمانے میں تو صرف ایک بادشاہ یا نواب ہی فیصلے کرتا تھا لیکن خوشی کی بات ہے کہ پاکستان قاعدے، قانون کے جھمیلوں سے آزاد ایک ایسی صوابدیدی سلطنت ہے جہاں ہر کوئی نواب اور اپنے اپنے فیصلوں میں بے خوفی کی حد تک آزاد ہے۔
نواب آف نواب شاہ و لاڑکانہ آصف زرداری کو اختیار ہے کہ وہ ایک ضلعی انتظامی افسر کو فرانس میں پاکستان کا سفیر مقرر کردیں اور پھر یہ فیصلہ واپس لے لیں۔
نواب آف ملتان یوسف رضا گیلانی کو پورا اختیار ہے کہ وہ سینیارٹی اور قابلیت کو ایک طرف رکھ کر اکیاون بیورو کریٹس کو گریڈ بائیس میں ترقی دے دیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کوخودمختار چیف الیکشن کمشنر کے مشورے کے بغیر برطرف کردیں۔ مسابقت کمیشن کے سربراہ کو اس کا نام جانے بغیر اپنے عہدے سے ہٹا دیں اور پھر اسے سیمنٹ مافیا کے خلاف اقدامات پر سلام پیش کرتے ہوئے مزید ایک ماہ کے لیے بحال کردیں۔
شوگر آڑھتیوں کو اختیار ہے کہ چینی پچپن روپے کِلو تک بیچیں۔ نواب آف اوکاڑہ وفاقی وزیرِ پیداوار منظور وٹو کو اختیار ہے کہ وہ چینی کی قیمت اپنے طور پر پونے پچاس روپے کِلو طے کردیں۔ نواب آف ملتان یوسف رضا گیلانی کو اختیار ہے کہ وہ چینی کی قیمت پینتالیس روپے فی کِلو کرنے پر رضامند ہوجائیں۔ قاضی القضاۃِ عدالتِ عالیہ صوبہ پنجاب کو اختیار ہے کہ وہ چینی کی قیمت چالیس روپے کِلو مقرر کردے اور شوگر ملز کو اختیار ہے کہ وہ قاضی کا فیصلہ نہ مانیں۔
نواب آف رائے ونڈ شہباز شریف کو اختیار ہے کہ وہ آٹے کی ناقص عوامی تقسیم کا غصہ ایک ڈویژنل کمشنر پر نکالتے ہوئے اسے موقع پر برطرف کردیں اور پھر ایک گھنٹے بعد بحال کردیں۔
نواب آف کوئٹہ میجر جنرل سلیم نواز کو اختیار ہے کہ ان کی مسلح سپاہ کے اہلکار تین اخبارات آساپ، آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے عملے کو مسلسل ہراساں کریں، آتے جاتے تلاشی لیں۔اور اس کے ردِ عمل میں آساپ کو اختیار ہے کہ وہ اپنی اشاعت معطل کردے۔ اور نواب آف بلوچستان اسلم رئیسانی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے بال نوچ لیں۔
شاہی جمہوریہ پاکستان میں محکمہ سراغ رسانی کی بادشاہت کا ذکر چونکہ خالی از خطرہ نہیں لہٰذہ اس لومڑی کے قصے پر قناعت کیجیے جو سرپٹ بھاگی چلی جارہی تھی۔گدھے نے پوچھا بی لومڑی خیریت تو ہے۔ لومڑی نے رکے بغیر جواب دیا بادشاہ نے اونٹ پکڑنے کا حکم جاری کیا ہے۔گدھے نے کہا مگر تم کیوں بھاگ رہی ہو۔
کہنے لگی بادشاہ کا کیا ٹھیک ، کسے اونٹ سمجھے کسے نہ سمجھے۔۔